Monday 24 November 2014

دیکھوں گی گھر کے خواب نہ ہجرت لکھوں گی میں

دیکھوں گی گھر کے خواب نہ ہجرت لکھوں گی میں
اس بار، کوئی اور مسافت لکھوں گی میں
اس زندگی نے جو بھی مجھے دکھ دیئے، دیئے
لیکن، انہیں بھی تیری عنایت لکھوں گی میں
میری غزل میں ذکرِ زمانہ نہ آئے گا
طے یہ ہوا ہے صرف محبت لکھوں گی میں
میں شاعری میں اس کا تماشا بناؤں کیوں
اب صرف ڈائری میں شکایت لکھوں گی میں
لے دیکھ میں نے پھر سے تیرا نام لکھ دیا
تیرا خیال تھا کہ وصیت لکھوں گی میں
اب ہاتھ روکنا ہے، میرا سانس روکنا
لکھنے کی ہو گئی مجھے عادت، لکھوں گی میں

ریحانہ قمر

No comments:

Post a Comment