Friday 28 November 2014

کہہ دیا جبہ و دستار نہیں چاہتے ہم

کہہ دیا، جبہ و دستار نہیں چاہتے ہم
’’دیکھ! درویش ہیں، تکرار نہیں چاہتے ہم‘‘
ہم بنیں تیرے گنہگار، نہیں چاہتے ہم
اس لیے، پیار کا اظہار نہیں چاہتے ہم
مان لی بات بلا چون و چراں بھائی کی
’’بات اتنی ہے کہ، ‘‘دیوار نہیں چاہتے ہم 
سوچنے کے لیے کچھ وقت تجھے دیتے ہیں
’’بس رہے دھیان کہ ‘‘انکار نہیں چاہتے ہم
تجھ کو معلوم ہے، ہم منہ میں زباں رکھتے ہیں
کوئی خاموش سا کردار نہیں چاہتے ہم
اب تو دیوار ہی گر جائے ہمارے اوپر
اب فقط سایۂ دیوار نہیں چاہتے ہم
اک فقط وہ ہے کہ جو دل پہ نظر رکھتا ہے
اور اس جیسا طلبگار نہیں چاہتے ہم
دیکھ ایسے نہ ہمیں پیار بھری نظروں سے
اب ترے عشق کا آزار نہیں چاہتے ہم
اب کوئی بات نئی کہیے تو پھر کہیے فصیحؔ
کہنہ انداز کے اشعار نہیں چاہتے ہم

شاہین فصیح ربانی

No comments:

Post a Comment