Sunday 30 November 2014

الزام ہم پہ صورتِ انعام ہی تو ہے

”ہم پر تمہاری چاہ کا الزام ہی تو ہے“
الزام ہم پہ صورتِ انعام ہی تو ہے
پیتے ہیں اہلِ غم جو مسلسل یہ رات دن
ساغر میں زندگی کا حسیں جام ہی تو ہے
کوئل کی کُوک میں جو ہے پوشیدہ ایک درد
میرے دلِ شکستہ کا پیغام ہی تو ہے
اک نام وہ کہ جس کے لیے زیست وار دی
شہرِ وفائے ذات میں بدنام ہی تو ہے
تصویرِ آرزو جو تھی دل میں اتار لی
آنکھوں کی پتلیوں میں فقط نام ہی تو ہے
محدود اپنی ذات تلک جو رہا سدا
شہرِ ہنر میں شخص وہ گمنام ہی تو ہے
دل کی حدوں کو چھو کے رہے گی ایک دن
میری نوائے شوق یہ الہام ہی تو ہے
جانا ہے آپ کو تو چلے جائیے، مگر
کچھ دیر تو ٹھہرئیے ابھی شام ہی تو ہے

رضیہ سبحان

No comments:

Post a Comment