Thursday 27 November 2014

کب ہمیں تمنا تھی آنکھ میں بسانے کی

کب ہمیں تمنا تھی آنکھ میں بسانے کی
اک تھکن رفاقت کی، اک تھکن زمانے کی
تم سے گر میں روٹھی تھی مان بھی تو جاتی میں
کاش کرتے اک کوشش تم مجھے منانے کی 
ٹوٹتی گئیں کڑیاں اور بڑھ گئی دوری
راہ مٹ گئی اک اک بات کو نبھانے کی
شام ہو سویرا ہو، دھوپ ہو اندھیرا ہو
کھائی ہے قسم تیری یاد نے ستانے کی 
آج پھر ہواؤں نے تذکرہ کِیا تیرا
بات پھر نکل آئی شامِ غم منانے کی
سرخ ہیں مری آنکھیں، زرد ہے مرا چہرہ
رائیگاں ہوئی کوشش سب اسے بھلانے کی
کیا سبب بتاؤں میں دل کی اس اداسی کا
بس رہی نہیں عادت مجھ کو مسکرانے کی
رات بھر مری آنکھیں نیم وا رہیں ناہیدؔ
آس تھی انہیں شاید اس کے لوٹ آنے کی

ناہید ورک

No comments:

Post a Comment