Wednesday, 26 November 2014

کبھی مضمحل کبھی پرسکوں کبھی برہمی ہے مزاج میں

کبھی مضمحل کبھی پُرسکوں کبھی برہمی ہے مزاج میں
بڑا فرق لگتا ہے جانِ جاں تِرے کل میں اور تِرے آج میں
نئی بندشوں کے ہیں دائرے مِرے جسم و جاں کی فصیل پر
نہیں راہ کوئی فرار کی، میں گِھرا ہوا ہوں سماج میں
یہ علامتیں ہیں شکست کی کہ جو ہاتھ ملتے ہو ہر گھڑی
کبھی وقت سے ہی گِلہ رہا، کبھی نقص رسم و رواج میں
جہاں رات ہوتی نہ تھی کبھی، وہی روشنی کو ترس گئے
نہ چمک رہی نہ دمک رہی، کسی تخت میں کسی تاج میں
تِرے باب میں کوئی کیا لکھے، تِرا حُسن کس سے بیان ہو
یہ تیرے جمال کا عکس ہے، جو نہاں ہے نجم السراج میں
یہ تو اس کا مجھ پہ کرم ہوا، جو عزیزِ مصر کا میں ہوا
مِرے بھائیوں نے تو دے دیا تھا مجھے بھی یارو خراج میں

سہیل ثاقب

No comments:

Post a Comment