Monday 24 November 2014

کھڑکیاں مت بجا میں نہیں بولتی

کھڑکیاں مت بجا میں نہیں بولتی
جا او جھوٹی ہوا! میں نہیں بولتی
چھوڑ دے، میری دہلیز کو چھوڑ دے
تجھ سے کہہ جو دیا، میں نہیں بولتی
مجھ سے اب میٹھے لہجے میں باتیں نہ کر
میرا دل بجھ چکا، میں نہیں بولتی
مجھ کو معلوم ہے جتنی اچھی ہوں میں
اب نہ باتیں بنا، میں نہیں بولتی
اب کسی چال میں، میں نہیں آؤں گی
چاہے قسمیں اٹھا، میں نہیں بولتی
یہ جو اِک مور سا میرے آنگن میں ہے
جب نہیں بولتا، میں نہیں بولتی
میرے پاؤں سے دھرتی کھسکنے لگی
جب بھی ماں نے کہا، میں نہیں بولتی
پہلے اس کے لئے سب سے لڑتی پھری
پھر اسے کہہ دیا، میں نہیں بولتی
اب صفائی کا موقع نہ دوں گی اسے
جو ہوا، سو ہوا، میں نہیں بولتی

ریحانہ قمر

No comments:

Post a Comment