Tuesday, 25 November 2014

ہجر کے ساتھ گزارا بھی تو ہو سکتا ہے

ہجر کے ساتھ گزارا بھی تو ہو سکتا ہے
اب محبت سے کنارا بھی تو ہو سکتا ہے
یہ جو اک نور چمکتا ہے مرے ماتھے پر
یہ ولایت کا اشارا بھی تو ہو سکتا ہے
میں تِرے حسن سے انکار بھی کر سکتا ہوں
 پیار ہونے کو دوبارا بھی تو ہو سکتا ہے
آج جس شخص پہ تم ناز کئے بیٹھے ہو
کل وہی شخص ہمارا بھی تو ہو سکتا ہے
دشمنِ جان! یہ بازی بھی پلٹ سکتی ہے
تجھ کو اس بار خسارا بھی تو ہو سکتا ہے
تُو نے اک بار اسے دل سے پکارا ہی نہیں
ورنہ عدنانؔ تمہارا بھی تو ہو سکتا ہے

عدنان راجا

No comments:

Post a Comment