Friday 28 November 2014

وہ جو دل میں رکھتے ہیں آرزو اذانوں کی

وہ جو دل میں رکھتے ہیں آرزو اذانوں کی
بند کس طرح رکھیں کھڑکیاں مکانوں کی
پرچمِ یقیں ان کو لائے گا نہ خاطر میں
تند و تیز کیسی ہوں آندھیاں گمانوں کی
کیا ہوا زمیں نے گر پاؤں باندھ رکھے ہیں
خواب میں تو کرتے ہیں سیر آسمانوں کی
انقلاب کی دیوی کس طرح سے راضی ہو
بھینٹ چاہیے جس کو صد ہزار جانوں کی
جنگ کا ارادہ ہے، اور حوصلہ دیکھیں
فوج ساتھ رکھتے ہیں کاغذی کمانوں کی
سوچتے ہیں سورج کے سائے میں چلے جائیں
جسم کو جلاتی ہے دھوپ سائبانوں کی
تند و تیز چلتی ہیں، چیر پھاڑ دیتی ہیں
دوستی ہواؤں سے کیا ہو بادبانوں کی
کیا انہیں بھی اردو سے پیار ہے، لگاؤ ہے
جو مثال دیتے ہیں دوسری زبانوں کی
کیوں فصیحؔ چھائی ہے یہ فسردگی تم پر
کھو گئیں کہاں آخر شوخیاں بیانوں کی

شاہین فصیح ربانی

No comments:

Post a Comment