دل کے ارماں روتے تھے بام و در کی یاد میں
آ گئے سو لوٹ کر، اپنے گھر کی یاد میں
دھڑکنوں کے شور میں، آہٹوں کی چاپ میں
رو رہے ہیں درد بھی، چارہ گر کی یاد میں
دور تک جاتی ہے، پھر لوٹ آتی ہے نظر
زخم سینے کے مرے اور بھی کچھ بڑھ گئے
جب کبھی ہم روئے اس ہمسفر کی یاد میں
دِقتوں سے رات کو نیند آئی تھی، مگر
کھل گئی پھر آنکھ اس بے خبر کی یاد میں
کیسے ہونٹوں پر مرے سب لپٹ کر سو گئے
کپکپاتے لفظ بابِ اثر کی یاد میں
یاد تھی دل کو وہ شبنم، سو میں نے آنکھ میں
اِک سمندر بھر لیا چشمِ تر کی یاد میں
ناہید ورک
No comments:
Post a Comment