Saturday, 29 November 2014

اک حسن کی خلقت سے ہر دل ہوا دیوانہ

اک حسن کی خلقت سے ہر دل ہوا دیوانہ
محفل میں چراغ آیا، گرنے لگا پروانہ
اتنا مِرا قصہ ہے، اتنا مِرا افسانہ
جب تم نہ ملے مجھ کو، میں ہو گیا دیوانہ
سمجھاؤ نہ سمجھے گا، بہلاؤ نہ بہلے گا
تڑپاؤ تو تڑپے گا، پہروں دلِ دیوانہ
زردی مِرے چہرے کی، آنسو مِری آنکھوں کے
سرکار یہ سب کچھ ہیں منجملۂ افسانہ
دنیائے محبت میں مشہور ہیں دو چیزیں
بے رحم تِری آنکھیں، میرا دلِ دیوانہ
ان نرگسی آنکھوں میں نیند آ ہی گئی آخر
تم سن چکے افسانہ، میں کہہ چکا افسانہ
جب کالی گھٹائیں ہوں، خاموش فضائیں ہوں
اللہ کرے تم ہو، اور یہ دلِ دیوانہ
کل آپ تھے اور میں تھا، عالم کی فضائیں تھیں
اب آج انہیں باتوں کا کہنا پڑا افسانہ
مسلم کے لئے مسجد، ہندو کے لئے مندر
بہزادؔ کو کافی ہے سنگِ درِ جانانہ

بہزاد لکھنوی

No comments:

Post a Comment