Tuesday 25 November 2014

سرما تھا مگر پھر بھی وہ دن کتنے بڑے تھے

سرما تھا مگر پھر بھی وہ دن کتنے بڑے تھے
اس چاند سے جب پہلے پہل نین لڑے تھے
رستے بڑے دشوار تھے اور کوس کڑے تھے
لیکن تِری آواز پہ ہم دوڑ پڑے تھے
بہتا تھا مِرے پاؤں تلے ریت کا دریا
اور دھوپ کے نیزے مِری نس نس میں گڑے تھے
پیڑوں پہ کبھی ہم نے بھی پتھراؤ کیا تھا
شاخوں سے مگر ٹوٹے ہوئے پات جھڑے تھے
جنگل نظر آئے ہیں بھرے شہر ہمیں تو
کہتے ہیں کہ اس دنیا میں انسان بڑے تھے
اے رام! وہ کس طرح لگے پار مسافر
جن کے سروسامان یہ مٹی کے گھڑے تھے

رام ریاض

ریاض احمد

No comments:

Post a Comment