سرما تھا مگر پھر بھی وہ دن کتنے بڑے تھے
اس چاند سے جب پہلے پہل نین لڑے تھے
رستے بڑے دشوار تھے اور کوس کڑے تھے
لیکن تِری آواز پہ ہم دوڑ پڑے تھے
بہتا تھا مِرے پاؤں تلے ریت کا دریا
اور دھوپ کے نیزے مِری نس نس میں گڑے تھے
پیڑوں پہ کبھی ہم نے بھی پتھراؤ کیا تھا
شاخوں سے مگر ٹوٹے ہوئے پات جھڑے تھے
جنگل نظر آئے ہیں بھرے شہر ہمیں تو
کہتے ہیں کہ اس دنیا میں انسان بڑے تھے
اے رام! وہ کس طرح لگے پار مسافر
جن کے سروسامان یہ مٹی کے گھڑے تھے
اس چاند سے جب پہلے پہل نین لڑے تھے
رستے بڑے دشوار تھے اور کوس کڑے تھے
لیکن تِری آواز پہ ہم دوڑ پڑے تھے
بہتا تھا مِرے پاؤں تلے ریت کا دریا
اور دھوپ کے نیزے مِری نس نس میں گڑے تھے
پیڑوں پہ کبھی ہم نے بھی پتھراؤ کیا تھا
شاخوں سے مگر ٹوٹے ہوئے پات جھڑے تھے
جنگل نظر آئے ہیں بھرے شہر ہمیں تو
کہتے ہیں کہ اس دنیا میں انسان بڑے تھے
اے رام! وہ کس طرح لگے پار مسافر
جن کے سروسامان یہ مٹی کے گھڑے تھے
رام ریاض
ریاض احمد
No comments:
Post a Comment