یک بیک شورشِ فغاں کی طرح
فصلِ گُل آئی امتحاں کی طرح
صحنِ گلشن میں بہرِ مشتاقاں
ہر روش کِھنچ گئی کماں کی طرح
پھر لہو سے ہر ایک کاسۂ داغ
یاد آیا جنُونِ گُم گشتہ
بے طلب قرضِ دوستاں کی طرح
جانے کس پر ہو مہرباں قاتِل
بے سبب مرگِ ناگہاں کی طرح
ہر صدا پر لگے ہیں کان یہاں
دل سنبھالے رہو زباں کی طرح
فیض احمد فیض
No comments:
Post a Comment