Sunday 30 November 2014

بوجھ اتنا ہے کہ خم جسم میں آیا ہوا ہے

بوجھ اتنا ہے کہ خم جسم میں آیا ہوا ہے
میں نے اِک خواب کو کاندھوں پہ اٹھایا ہوا ہے
تُو تو حیران ہے ایسے کہ ابھی دیکھا ہو
میں نے یہ زخم تو پہلے بھی دکھایا ہوا ہے
صبحِ کاذب کی ہوا میں یہ مہک کیسی ہے
ایسا لگتا ہے کوئی جسم نہایا ہوا ہے
تیسری سمت رواں، رقص کناں ہے کب سے
دل سا وحشی، کہ جو اپنا نہ پرایا ہوا ہے
تُو دکھائی نہ دیا اب تو میں مر جاؤں گا
خواہشِ دید نے کہرام مچایا ہوا ہے
ضد میں آؤں تو اسی ذرے کو سورج کر دوں
نکتہ چیں نے یہ جو اِک نکتہ اٹھایا ہوا ہے
اس تعلق کو بہر طور نبھانا ہے اسدؔ
یہ تعلق جو مِری جان کو آیا ہوا ہے

خاور اسد

No comments:

Post a Comment