بوجھ اتنا ہے کہ خم جسم میں آیا ہوا ہے
میں نے اِک خواب کو کاندھوں پہ اٹھایا ہوا ہے
تُو تو حیران ہے ایسے کہ ابھی دیکھا ہو
میں نے یہ زخم تو پہلے بھی دکھایا ہوا ہے
میں نے اِک خواب کو کاندھوں پہ اٹھایا ہوا ہے
تُو تو حیران ہے ایسے کہ ابھی دیکھا ہو
میں نے یہ زخم تو پہلے بھی دکھایا ہوا ہے
صبحِ کاذب کی ہوا میں یہ مہک کیسی ہے
ایسا لگتا ہے کوئی جسم نہایا ہوا ہے
تیسری سمت رواں، رقص کناں ہے کب سے
دل سا وحشی، کہ جو اپنا نہ پرایا ہوا ہے
تُو دکھائی نہ دیا اب تو میں مر جاؤں گا
خواہشِ دید نے کہرام مچایا ہوا ہے
ضد میں آؤں تو اسی ذرے کو سورج کر دوں
نکتہ چیں نے یہ جو اِک نکتہ اٹھایا ہوا ہے
اس تعلق کو بہر طور نبھانا ہے اسدؔ
یہ تعلق جو مِری جان کو آیا ہوا ہے
خاور اسد
ایسا لگتا ہے کوئی جسم نہایا ہوا ہے
تیسری سمت رواں، رقص کناں ہے کب سے
دل سا وحشی، کہ جو اپنا نہ پرایا ہوا ہے
تُو دکھائی نہ دیا اب تو میں مر جاؤں گا
خواہشِ دید نے کہرام مچایا ہوا ہے
ضد میں آؤں تو اسی ذرے کو سورج کر دوں
نکتہ چیں نے یہ جو اِک نکتہ اٹھایا ہوا ہے
اس تعلق کو بہر طور نبھانا ہے اسدؔ
یہ تعلق جو مِری جان کو آیا ہوا ہے
خاور اسد
No comments:
Post a Comment