Saturday 29 November 2014

ہر گھر سے

ہر گھر سے

دن کے اجالوں میں
خداہائے کفر ساز و کفر نواز
پیتے ہیں سچ کا لہو
کہ وہ اجالوں کی بستی میں 
زندہ رہیں
شرق سے اب تمہیں
کوئی شب بیدار کرنا ہو گی
کہ سچ اسے دِکھنے ہی نہ پائے
تمہیں بھی تو 
اس کی کوئی خاص ضرورت نہیں
یا پھر 
آتی نسلوں کے لیے ہی سہی
دن کے اجالوں میں
روحِ حیدرؓ“ رکھنا ہو گی”
سسی فس“ کا جیون”
جیون نہیں
سقراط“ کی مرتیو”
مرتیو نہیں
جینا ہے تو 
حسینؓ“ کا جیون جیو”
کہ جب ارتھی اٹھے
خون کے آنسوؤں میں
راکھ اڑے 
خون کے آنسوؤں میں
شاعر کا قلم 
روشنی بکھیرے گا
زندگی، آکاش کی محتاج نہ رہے گی
ہر گھر سے چاند ہر گھر سے سورج 
طلوع ہو گا
غروب کی ہر پگ پر
“کہیں ”سقراط“ کہیں ”منصور
تو کہیں ”سرمد“ کھڑا ہو گا

مقصود حسنی

No comments:

Post a Comment