Thursday 27 November 2014

نہ کسی پہ زخم عیاں کوئی نہ کسی کو فکر رفو کی ہے

نہ کسی پہ زخم عیاں کوئی، نہ کسی کو فکر رفو کی ہے
نہ کرم ہے ہم پہ حبیب کا، نہ نگا ہ ہم پہ عدو کی ہے
صفِ زاہداں ہے تو بے یقیں، صفِ مئے کشاں ہے تو بے طلب
نہ وہ صبح درود و وضو کی ہے، نہ وہ شام جام و سبو کی ہے
نہ یہ غم نیا، نہ ستم نیا، کہ تری جفا کا گِلہ کریں
یہ نظرتھی پہلے بھی مضطرب، یہ کسک تو دل میں کبھو کی ہے
کفِ باغباں پہ بہارِ گل کا ہے قرض پہلے سے بیشتر
کہ ہر ایک پھول کے پیرہن، میں نمود میرے لہو کی ہے
نہیں ‌خوفِ روزِ سیہ ہمیں، کہ ہے فیضؔ ظرفِ نگاہ میں
ابھی گوشہ گیر وہ اک کرن، جو لگن اس آئینہ رو کی ہے

فیض احمد فیض

No comments:

Post a Comment