Sunday, 23 November 2014

حال دونوں کا ہے غیر اب سامنا مشکل کا ہے

حال دونوں کا ہے غیر، اب سامنا مشکل کا ہے
دل کو میرا درد ہے اور مجھ کو رونا دل کا ہے
وحشت آبادِ جہاں میں دل بہلنے کا نہیں
رنگ کچھ پہلے ہی سے بے رنگ اس محفل کا ہے
واہ کیا کہنا ہے، اے کوتاہئ دستِ ہوس
دورِ آخر ہے مگر پاسِ ادب محفل کا ہے
جذبۂ صادق ہے اک صورت گرِ نازک خیال
جلوہ گاہِ دل، مرقّع یار کی محفل کا ہے
رنگ لائی ہے بہارِ لالۂ خونیں کفن
صحنِ جنت اک نمونہ کوچۂ قاتل کا ہے
آپ کے بیمارِ غم نے سختیاں جھیلیں بہت
شب بخیر اک اور دھاوا آخری منزل کا ہے
چار دیوارِ عناصر پھاندنا آساں نہیں
سخت مشکل مرحلہ زندانِ آب و گِل کا ہے
گم ہوئے ہوش و حواس ایسے محیطِ عشق میں
ڈوبنے والوں کو اب تِہ پر گماں ساحل کا ہے
سینکڑوں آوارۂ صحرا نظر آئے، مگر
کوئی صورت آشنا بھی صاحبِ محمل کا ہے
چشمِ نامحرم سے غافل روئے لیلیٰ ہے نہاں
ورنہ اک دھوکا ہی دھوکا پردۂ محمل کا ہے
حضرتِ مجنوں کجا، نظارۂ لیلیٰ کجا
ایک پردہ آنکھ کا ہے، دوسرا محمل کا ہے
بھاگتا ہے یار آغوشِ تصور سے بھی دور
کیا ٹھکانہ یاسؔ اس اندیشۂ باطل کا ہے

یاس یگانہ

No comments:

Post a Comment