Saturday 29 November 2014

ہزار راہیں مڑ کے دیکھیں

ہزار راہیں مڑ کے دیکھیں
کہیں سے کوئی صدا نہ آئی
بڑی وفا سے نبھائی تم نے
ہماری تھوڑی سی بے وفائی
جہاں سے تم موڑ مڑ گئے تھے
یہ موڑ اب بھی وہیں پڑے ہیں
ہم اپنے پیروں میں جانے کتنے
بھنور لپیٹے ہوئے کھڑے ہیں
کہیں کسی روز یوں بھی ہوتا
ہماری حالت تمہاری ہوتی
جو رات ہم نے گزاری مر کے
وہ رات تم نے گزاری ہوتی
تمہیں یہ ضد تھی کہ ہم بلاتے
ہمیں امید کہ وہ پکاریں
ہے نام ہونٹوں پہ اب بھی لیکن
آواز میں پڑ گئیں دراڑیں

گلزار

1 comment:

  1. ہزار راہیں مڑ کے دیکھیں، کہیں سے کوئی صدا نہ آئی
    https://www.facebook.com/video.php?v=810030085718483

    ReplyDelete