ہزار راہیں مڑ کے دیکھیں
کہیں سے کوئی صدا نہ آئی
بڑی وفا سے نبھائی تم نے
ہماری تھوڑی سی بے وفائی
جہاں سے تم موڑ مڑ گئے تھے
ہم اپنے پیروں میں جانے کتنے
بھنور لپیٹے ہوئے کھڑے ہیں
کہیں کسی روز یوں بھی ہوتا
ہماری حالت تمہاری ہوتی
جو رات ہم نے گزاری مر کے
وہ رات تم نے گزاری ہوتی
تمہیں یہ ضد تھی کہ ہم بلاتے
ہمیں امید کہ وہ پکاریں
ہے نام ہونٹوں پہ اب بھی لیکن
آواز میں پڑ گئیں دراڑیں
گلزار
ہزار راہیں مڑ کے دیکھیں، کہیں سے کوئی صدا نہ آئی
ReplyDeletehttps://www.facebook.com/video.php?v=810030085718483