Monday 24 November 2014

ان سے کہیں ملے ہیں تو ہم یوں کبھی ملے

ان سے کہیں ملے ہیں تو ہم یوں کبھی ملے
اک اجنبی سے جیسے کوئ اجنبی مِلے
بس ایک مے کدہ ہے یہاں وہ حسیں مقام
ہر شام اک سحر کی جہاں روشنی مِلے
مجھ کو ہُوا جہاں بھی اندھیروں کا سامنا
اکثر وہاں چراغ لیے آپ ہی مِلے
فرصت نہیں بہ خلوتِ گیسوئے عنبریں
کہہ دو غمِ حیات سے وہ پھر کبھی مِلے
دیکھا تو لوحِ دل پہ تِرے نام کے سوا
جلتے ہوئے نشانِ سِتم اور بھی مِلے
کچھ دور آؤ موت کے ہمراہ بھی چلیں
ممکن ہے راستے میں کہیں زندگی مِلے
ہونٹوں کے مئے، نظر کی کے تقاضے، بدن کی آنچ
اب کیا ضرور ہے کہ وہی رات بھی مِلے
ذوقِ وفا، فریبِ تمنا، خیالِ یار
کتنے ہی چارہ سازِ غمِ زندگی مِلے
ہوتا ہوں کچھ قریب تِری رہگزار سے
جب بھی جہاں جہاں بھی کوئی روشنی مِلے
جامی مرے خلوص نے سینے میں رکھ لیے
یارانِ  خود فریب سے جو زخم بھی مِلے

خورشید احمد جامی

No comments:

Post a Comment