Saturday 29 November 2014

فریاد بھی ہے سوئے ادب اپنے شہر میں

فریاد بھی ہے سوئے ادب اپنے شہر میں
ہم پھر رہے ہیں مُہر بلب، اپنے شہر میں
اب کیا دیارِ غیر میں ڈھونڈیں ہم آشنا
اپنے تو غیر ہو گئے سب اپنے شہر میں
اب امتیازِ دشمنی و دوستی کہاں؟
حالات ہو گئے ہیں عجب اپنے شہر میں
پھر پھول آیا سبز قدم ہو کے رہ گیا
کب فصلِ گل ہے فصلِ طرب اپنے شہر میں
جو راندۂ زمانہ تھے، اب شہریار ہیں
کس کو خیالِ نام و نسب اپنے شہر میں
اک آپ ہیں کہ سارا زمانہ ہے آپ کا
اک ہم کہ اجنبی ہوئے اب اپنے شہر میں
خاطرؔ اب اہلِ دل بھی بنے ہیں زمانہ ساز
کس سے کریں وفا کی طلب اپنے شہر میں

خاطر غزنوی

No comments:

Post a Comment