سایہ کہیں کسی کو میسر نہیں ہے کیا
سر پر جو آسمان تھا، سر پر نہیں ہے کیا
اک دوسرے سے اپنا پتا پوچھتے ہیں لوگ
اب کوئی اپنے آپ کے اندر نہیں ہے کیا
ہم زندگی تِرے لیے جان سے گزر گئے
اب بھی تِرا حساب برابر نہیں ہے کیا
ہنستا ہے کوئی کھل کے نہ روتا ہے ٹوٹ کر
بستی میں کوئی مست قلندر نہیں ہے کیا
اس دورِ ناسپاس کا ہونے سے تو سعید
مٹی میں ڈوب جائیں یہ بہتر نہیں ہے کیا
سر پر جو آسمان تھا، سر پر نہیں ہے کیا
اک دوسرے سے اپنا پتا پوچھتے ہیں لوگ
اب کوئی اپنے آپ کے اندر نہیں ہے کیا
ہم زندگی تِرے لیے جان سے گزر گئے
اب بھی تِرا حساب برابر نہیں ہے کیا
ہنستا ہے کوئی کھل کے نہ روتا ہے ٹوٹ کر
بستی میں کوئی مست قلندر نہیں ہے کیا
اس دورِ ناسپاس کا ہونے سے تو سعید
مٹی میں ڈوب جائیں یہ بہتر نہیں ہے کیا
سعید الظفر صدیقی
No comments:
Post a Comment