Wednesday 26 November 2014

گھر کو لوٹ آنے کا راستہ نہیں ملتا

وحشتوں کے جنگل سے گھر کو لوٹ آنے کا راستہ نہیں ملتا
تیرے غم نصیبوں کو تجھ کو بھول جانے کا حوصلہ نہیں ملتا
ان سیاہ بختوں کی بے بسی کا اندازہ لفظ کیا لگائیں گے
اپنے گھر کے اندر بھی جن کو سر چھپانے کا آسرا نہیں ملتا
قہقہوں کی آوازیں کیسے پھوٹ سکتی ہیں ان اداس صحنوں سے
جن کی داستانوں میں کوئی مسکرانے کا واقعہ نہیں ملتا
روشنی سدا اس کی سوگوار راتوں سے دور دور رہتی ہے
قصرِ بادشاہی سے جس غریب خانے کا سلسلہ نہیں ملتا
آندھیاں پرندوں سے واپسی کی امیدیں یوں تو چھین لیتی ہیں
کوئی لوٹ آئے بھی تو کہیں ٹھکانے کا کچھ پتہ نہیں ملتا

سرور ارمان

No comments:

Post a Comment