وحشتوں کے جنگل سے گھر کو لوٹ آنے کا راستہ نہیں ملتا
تیرے غم نصیبوں کو تجھ کو بھول جانے کا حوصلہ نہیں ملتا
ان سیاہ بختوں کی بے بسی کا اندازہ لفظ کیا لگائیں گے
اپنے گھر کے اندر بھی جن کو سر چھپانے کا آسرا نہیں ملتا
قہقہوں کی آوازیں کیسے پھوٹ سکتی ہیں ان اداس صحنوں سے
روشنی سدا اس کی سوگوار راتوں سے دور دور رہتی ہے
قصرِ بادشاہی سے جس غریب خانے کا سلسلہ نہیں ملتا
آندھیاں پرندوں سے واپسی کی امیدیں یوں تو چھین لیتی ہیں
کوئی لوٹ آئے بھی تو کہیں ٹھکانے کا کچھ پتہ نہیں ملتا
سرور ارمان
No comments:
Post a Comment