Friday 28 November 2014

عشق میں ہوتا نہیں نفع خسارہ یارا

عشق میں ہوتا نہیں نفع، خسارا، یارا 
جھوٹ مت بول مرے ساتھ خدارا! یارا
خاک چھانی بھی گئی، خاک اڑائی بھی گئی
خاک سے نکلا نہیں کوئی ستارا، یارا
تجھ سے تشکیلِ خد وخال نہیں ہو سکتی 
لے کے آ جا تُو مرے چاک پہ گارا، یارا
تُو نے دیکھا ہے کہاں شہرِ سخن پوری طرح 
میں گھماؤں گا تجھے سارے کا سارا، یارا
میری دریا سی طبیعت تجھے لے ڈوبے گی 
مجھ سے بہتر ہے کہ تُو کر لے کنارا، یارا
تم ابھی نیند کی وادی میں نئے آئے ہو
تم پہ کھل سکتا نہیں خواب ہمارا، یارا
مجھ کو دریا نے یونہی دے دیا رستہ عامیؔ
میں نے پانی پہ عصا بھی نہیں مارا، یارا

عمران عامی

No comments:

Post a Comment