Thursday 27 November 2014

بکھرتے ہی گئے سب خواہشوں کے ساز کیا کرتے

بکھرتے ہی گئے سب خواہشوں کے ساز، کیا کرتے
تری لَے اور تھی، کچھ اور تھی آواز، کیا کرتے
کمالِ ضبط پر میرے، بھلا وہ ناز کیا کرتے
ستانے آئے تھے مجھ کو وہ چارہ ساز، کیا کرتے
جنہوں نے چادروں کو پھاڑ کر سینے چھپائے ہوں
وہ اپنی مفلسی میں اور پسِ انداز کیا کرتے
ہماری گفتگو کی جب دھنک بھی قید کر ڈالی
تو، مجبوراً ہمیں کرنی پڑی پرواز، کیا کرتے
ضرورت تھی جنہیں تیری وفاؤں کے گھروندے کی
ترے وعدوں کی خالی سیپیوں پر ناز کیا کرتے

ناہید ورک

No comments:

Post a Comment