آغازِ محبت کا سماں بھول گئے کیا
ہر لمحہ، وہ رقصِ دل و جاں بھول گئے کیا
چہرے کی تب و تاب وہ آہٹ پہ ہماری
ہر پَل وہ سُوئے درِ نگراں بھول گئے کیا
کیا حرفِ محبت کو، تکلم کی ضرورت
وہ حسن و جوانی کے، لپکتے ہوئے شعلے
اور ان میں سکونِ دو جہاں بھول گئے کیا
ہر چیز اہم تھی، نظر و لہجہ و الفاظ
ہر چیز پہ سو سو تھے گماں، بھول گئے کیا
یوں یاد دلاتا ہوں انہیں، وعدۂ فردا
میں آپکے صدقے مری جاں! بھول گئے کیا
ہے کوئی جو ان سے یہ ذرا پوچھ کے آئے
قدریں وہ بزرگوں کی میاں! بھول گئے کیا
شیرینئ گفتار ہے، ضامنؔ! جو تمہاری
ہے صدقۂ شیریں دہناں، بھول گئے کیا
ضامن جعفری
No comments:
Post a Comment