Sunday 23 November 2014

دل پہ قیامت ٹوٹ پڑی ہے آنکھ کو خوں برسانے دو

دل پہ قیامت ٹوٹ پڑی ہے آنکھ کو خوں برسانے دو
ہم سے جنوں کی بات کرو تم، ہوش و خرد کو جانے دو
بات نہ کرنا، چپ رہنا، نظریں نہ ملاؤ، دیکھ تو لو
اس پر بھی گر، چہرے کا رنگ، اڑتا ہے، اڑ جانے دو
مَن کی بات چھپانا مشکل، آنکھیں سب کہہ دیتی ہیں
ایسے بھی کیا دل پر پہرے، کچھ تو زباں تک آنے دو
سحرِ محبت ہے یہ سب، مجبوری بھی، جھنجھلاہٹ بھی
ان کے منہ میں جو آئے، چپ چاپ سنو، کہہ جانے دو
پابندِ محبت، دونوں ہیں، انکارِ محبت، دونوں کو
میدانِ محبت میں، یہ کیسے، کود پڑے، دیوانے دو
کچھ اشکِ ندامت ضامنؔ نے مقطع میں سجا کر بھیجے ہیں
تقصیرِ دلِ نادان پہ ہم شرمندہ ہیں، اب جانے دو​

ضامن جعفری

No comments:

Post a Comment