Wednesday 26 November 2014

سکھلا ہمیں نہ پیاس کے آداب ہمنشیں

سکھلا ہمیں نہ پیاس کے آداب ہمنشیں
رکھتے ہیں ہم تو شدتِ سیلاب ہمنشیں
ویرانئ حیات کا گھاؤ نہ بھر سکا
ویسے تو بے شمار تھے احباب ہمنشیں
تم پاس تھے تو ایسے منور تھا عرشِ دل
روشن ہوں جیسے سینکڑوں مہتاب ہمنشیں
طوفان سے ہو کیسے ہماری مفاہمت
اپنے تو مدتوں سے ہیں گرداب ہمنشیں
اک تم ہو اور شہرِ جنوں خیز ہمقدم
اک ہم ہیں اور فرصتِ بے خواب ہمنشیں
دن بھر رہی سرابِ مسلسل کی ہمرہی
شب بھر رہے گا دجلۂ بے آب ہمنشیں
تم سامنے تو ہو مگر افسوس، جس طرح
تاریخِ کہنہ رُو کا کوئی باب ہمنشیں

سرور ارمان

No comments:

Post a Comment