سکھلا ہمیں نہ پیاس کے آداب ہمنشیں
رکھتے ہیں ہم تو شدتِ سیلاب ہمنشیں
ویرانئ حیات کا گھاؤ نہ بھر سکا
ویسے تو بے شمار تھے احباب ہمنشیں
تم پاس تھے تو ایسے منور تھا عرشِ دل
طوفان سے ہو کیسے ہماری مفاہمت
اپنے تو مدتوں سے ہیں گرداب ہمنشیں
اک تم ہو اور شہرِ جنوں خیز ہمقدم
اک ہم ہیں اور فرصتِ بے خواب ہمنشیں
دن بھر رہی سرابِ مسلسل کی ہمرہی
شب بھر رہے گا دجلۂ بے آب ہمنشیں
تم سامنے تو ہو مگر افسوس، جس طرح
تاریخِ کہنہ رُو کا کوئی باب ہمنشیں
سرور ارمان
No comments:
Post a Comment