Saturday, 29 November 2014

سورج ڈوب رہا ہے

سورج ڈوب رہا ہے

میں جو بھی ہوں
چاند اور سورج کی کرنوں پر
میرا بھی تو حق ہے
دھرتی کا ہر موسم
خدا کا ہر گھر
میرا بھی تو ہے
قرآن ہو کہ گیتا
رامائن کا ہر قصہ
گرنتھ کا ہر نقطہ
میرا بھی تو ہے
تقسیم کا در
جب بھی کھلتا ہے
لاٹ کے دفتر کا منشی
بارود کا مالک
پرچی کا مانگت
عطا کے بوہے
بند کر دیتا ہے
رام اور عیسیٰ کے بول
ناچوں کی پُھرتی
بے لباسی میں رُل کر
بے گھر، بے دَر ہوئے ہیں
دفتری مُلاں کے منہ میں
کھیر کا چمچہ ہے
پنڈت اور فادر
ہاں ناں کے پُل پر بیٹھے
توتے کو فاختتہ کہتے ہیں
دادگر کے دَر پر سائل
پانی بلوتا ہے
مدرسے کا ماشٹر
کمتر سے بھی کمتر
کالج کا منشی
جیون دان ہوا کو ترسے
قلم کا دھنی
غلاموں کے سم پیتے
برچھوں کی زد میں ہے
سب اچھا کا تلک
سر ماتھے پر رکھنے والے
گورا ہاؤس کے چمچے کڑچھے
طاقت کی بیلی میں
کربل کربل کرتے یہ کیڑے
ہانیمن اور اجمل کا منہ چڑاتے ہیں
مسائل کی روڑی پر بیٹھا
میں گونگا بہرا بے بس زخمی
نانک سے بدھ
لچھمن سے ویر تلاشوں
مدنی کریمؐ کی راہ دیکھوں
علیؓ علیؓ پکاروں کہ
سورج ڈوب رہا ہے

مقصود حسنی

No comments:

Post a Comment