سورج ڈوب رہا ہے
میں جو بھی ہوں
چاند اور سورج کی کرنوں پر
میرا بھی تو حق ہے
دھرتی کا ہر موسم
خدا کا ہر گھر
قرآن ہو کہ گیتا
رامائن کا ہر قصہ
گرنتھ کا ہر نقطہ
میرا بھی تو ہے
تقسیم کا در
جب بھی کھلتا ہے
لاٹ کے دفتر کا منشی
بارود کا مالک
پرچی کا مانگت
عطا کے بوہے
بند کر دیتا ہے
رام اور عیسیٰ کے بول
ناچوں کی پُھرتی
بے لباسی میں رُل کر
بے گھر، بے دَر ہوئے ہیں
دفتری مُلاں کے منہ میں
کھیر کا چمچہ ہے
پنڈت اور فادر
ہاں ناں کے پُل پر بیٹھے
توتے کو فاختتہ کہتے ہیں
دادگر کے دَر پر سائل
پانی بلوتا ہے
مدرسے کا ماشٹر
کمتر سے بھی کمتر
کالج کا منشی
جیون دان ہوا کو ترسے
قلم کا دھنی
غلاموں کے سم پیتے
برچھوں کی زد میں ہے
سب اچھا کا تلک
سر ماتھے پر رکھنے والے
گورا ہاؤس کے چمچے کڑچھے
طاقت کی بیلی میں
کربل کربل کرتے یہ کیڑے
ہانیمن اور اجمل کا منہ چڑاتے ہیں
مسائل کی روڑی پر بیٹھا
میں گونگا بہرا بے بس زخمی
نانک سے بدھ
لچھمن سے ویر تلاشوں
مدنی کریمؐ کی راہ دیکھوں
علیؓ علیؓ پکاروں کہ
سورج ڈوب رہا ہے
مقصود حسنی
No comments:
Post a Comment