Monday, 24 November 2014

بس یہ ہوا کہ اس نے تکلف سے بات کی

بس یہ ہوا کہ اس نے تکلف سے بات کی
اور ہم نے روتے روتے دوپٹے بھگو لیے
پلکوں پہ کچی نیندوں کا رس پھیلتا ہو جب
ایسے میں آنکھ دھوپ کے رخ کیسے کھولیے
تیری برہنہ پائی کے دکھ بانٹتے ہوئے
ہم نے خود اپنے پاؤں میں کانٹے چبھو لیے
میں تیرا نام لے کے تذبذب میں پڑ گئی
سب لوگ اپنے اپنے عزیزوں کو رو لیے
خوشبو کہیں نہ جائے‘‘ یہ اصرار ہے بہت’’
اور یہ بھی آرزو کہ ذرا زلف کھولیے
تصویر جب نئی ہے، نیا کینوس بھی ہے
پھر طشتری میں رنگ پرانے نہ گھولیے

پروین شاکر

No comments:

Post a Comment