Saturday 29 November 2014

کبھی شاخ و سبزہ و برگ پر کبھی غنچہ و گل و خار پر

کبھی شاخ و سبزہ و برگ پر، کبھی غنچہ و گل و خار پر
میں چمن میں چاہے جہاں رہوں میرا حق ہے فصلِ بہار پر
مجھے دے نہ غیب میں دھمکیاں، گریں لاکھ بار یہ بجلیاں
میری سلطنت یہی آشیاں، میری ملکیت یہی چار پر
میری سمت سے اسے اے صبا! یہ پیام آخر غم سنا
ابھی دیکھنا ہو تو دیکھ جا، کہ خزاں ہے اپنی بہار پر
یہ فریبِ جلوہ ہے سر بسر، مجھے ڈر یہ ہے دلِ بے خبر
کہیں جم نہ جائے تیری نظر، انہیں چند نقش و نگار پر
عجب انقلاب زمانہ ہے، میرا مختصر سا فسانہ ہے
یہ جو آج بار ہے دوش پر، یہی سر تھا زانوئے یار پر
میں رہین درد سہی مگر، مجھے اور کیا چاہئے جگرؔ
غمِ یار ہے میرا شیفتہ، میں فریفتہ غمِ یار پر

جگر مراد آبادی

No comments:

Post a Comment