Friday 28 November 2014

زخم لوگوں سے چھپانا اور سہلانا بھی تھا

زخم لوگوں سے چھپانا، اور سہلانا بھی تھا
آنسوؤں کو ضبط کرنا، دل کو سمجھانا بھی تھا
آپ کا شکوہ بجا ہے، ہم ہی رستے سے اٹھے
شام سے پہلے مسافر نے کہیں جانا بھی تھا
مجھ کو میری صاف گوئی بے بہا مہنگی پڑی
اس کو کانا کہہ دیا جو اصل میں کانا بھی تھا
تُو گیا اور پھر مری دنیا اجڑ کر رہ گئی
ورنہ محفل بھی وہیں تھی، اور مے خانہ بھی تھا
یہ حقیقت ہم پہ اپنی پوری وحشت سے کھلی
وہ جو آئی تھی تو اس نے چھوڑ کر جانا بھی تھا

افتخار حیدر

No comments:

Post a Comment