Tuesday 25 November 2014

ہر ایک شب کو ترے نام ہونا پڑتا ہے

ہر ایک شب کو تِرے نام ہونا پڑتا ہے
اداس دل کو سرِ شام ہونا پڑتا ہے
خبیث تہمتیں دامن کو چیر جاتی ہیں
تمہارے واسطے بدنام ہونا پڑتا ہے
ہمیں سے لگتا نہیں ہے کسی پہ بھی الزام
ہمیں کو موردِ الزام ہونا پڑتا ہے
قلم ہیں کتنے جو تلوار بن کے جیتے ہیں
یہاں قلم کو بھی نیلام ہونا پڑتا ہے
یہی ہے ارض و سماوات کا اصول، ہمیں
کبھی سبب کبھی انجام ہونا پڑتا ہے
ہر اک گناہ گواہی سے بچ نہیں سکتا
کبھی تو رجم سرِ عام ہونا پڑتا ہے
ہدف پہ لگنے سے پہلے یہ ہوتا ہے جاوید
کئی نشانوں کو ناکام ہونا پڑتا ہے

 جاوید جمیل

No comments:

Post a Comment