Tuesday 25 November 2014

درس خودداری

درسِ خودداری

یقین ان کی عنایت کا زینہار نہ کر
بہشت بھی جو یہ بت دیں تو اعتبار نہ کر
ہر ایک اشک تماشائے صد گلستان ہے
امیدِ عیش کو شرمندۂ بہار نہ کر
وہ مرگِ عشق کی لذت سے آشنا ہی نہیں
دعائے خضرؑ پہ آمین بار بار نہ کر
ترانہ جنگ کا شورِ شکستِ دل کو سمجھ
کبھی اطاعتِ تقدیرِ روزگار نہ کر
جہاں میں کشمکشِ جہد کا ہے نام حیات
یقین مسئلۂ جبر و اختیار نہ کر
متاعِ عیش فتوحات سعی کا ہے صلہ
سپاس سنجئ ایامِ روزگار نہ کر​

آغا حشر کاشمیری

No comments:

Post a Comment