Sunday 30 November 2014

ہمراہ سفر میں ہو سفر میں بھی نہیں ہو

ہمراہ سفر میں ہو، سفر میں بھی نہیں ہو
افسوس مِرے دل میں، نہ آنکھوں میں کہیں ہو
سنتے ہیں چمن میں ہو، گلابوں میں، سمن میں
آنکھوں میں جو بس جائے وہی ماہ جبیں ہو
کیا تم میں ہے ایسا جو مجھے پاس لگے ہو
لب ہو، مِری آنکھیں ہو، کہ ابروئے جبیں ہو
یہ جذبِ محبت کا فسوں ہے کہ سحر ہے
تم کو وہاں پایا، جہاں موجود نہیں ہو
مل جائے ہمیں راہِ وفا میں کوئی ایسا
جذبوں میں صداقت لیے اس دل میں مکیں ہو
اک عمر گزر جانے پہ کیسا یہ غضب ہے
چھوڑا جہاں میں نے تمہیں اب تک بھی وہیں ہو
حسرت جسے پانے کی رہی دل میں ہمیشہ
افلاک کو چُھوتا ہو مگر خاک نشیں ہو

رضیہ سبحان

No comments:

Post a Comment