Saturday 29 November 2014

مجھ سے نہ پوچھ میرا حال سن مرا حال کچھ نہیں

مجھ سے نہ پوچھ میرا حال، سُن مِرا حال کچھ نہیں
تیری خوشی میں خوش ہوں میں، مجھ کو ملال کچھ نہیں
میرے لئے جہان میں، ماضی و حال کچھ نہیں
جب بھی نہ تھا کوئی سوال، اب بھی سوال کچھ نہیں
مجھ کو کوئی خوشی نہیں، مجھ کو ملال کچھ نہیں
یہ تو تِرا کمال ہے، میرا کمال کچھ نہیں
شکوۂ بخت ہے مجھے، وقت سے ہیں شکایتیں
جس سے ملال چاہئے، اس سے ملال کچھ نہیں
کیف اسی کا نام ہے، عشق اسی کا نام ہے
تیرے خیال میں ہوں غرق، اپنا خیال کچھ نہیں
رنگ میں اپنے مست ہوں، دستِ کرم نہ کر اِدھر
ہوں تو گدائے دَر مگر تجھ سے سوال کچھ نہیں
روؤں نہ بار بار کیوں، کیوں میں کروں نہ آہ آہ
دل کا مآل ہو تو ہو، غم کا مآل کچھ نہیں
دستِ گدا نواز کا رنگ ہے کچھ پھرا ہوا
آہ، تِرے نصیب میں دستِ سوال کچھ نہیں​

بہزاد لکھنوی

No comments:

Post a Comment