Wednesday 26 November 2014

انا کو بیچتا کیسے یہ ہمت کر نہیں پایا

انا کو بیچتا کیسے، یہ ہمت کر نہیں پایا
میں خود اپنی کبھی کھل کر حمایت کر نہیں پایا
چمن کو رکھ دیا گِروی، وہ جرأت کر نہیں پایا
محافظ بن کے آیا تھا، حفاظت کر نہیں پایا
کبھی سودا خسارے میں، کبھی گاہک نہیں کوئی
میں طَے بازارِ دل میں اپنی قیمت کر نہیں پایا
خدا جانے گزاری کس طرح سے زندگی اس نے
عداوت کی نہیں جس نے، محبت کر نہیں پایا
کنارے تک تو لے آیا تھا میں ٹوٹی ہوئی کشتی
اتر جانے کی لیکن کوئی ہمت کر نہیں پایا
وہ تھا تو نِت نئے تیور سے اس کو تنگ کرتا تھا
میں اس کے بعد پھر کوئی شرارت کر نہیں پایا

سہیل ثاقب

No comments:

Post a Comment