ہمسائے میں شیطان بھی رہتا ہے، خدا بھی
جنت بھی میسر ہے، جہنم کی ہوا بھی
یہ شہر تو لگتا ہے کباڑی کی دُکاں ہے
کھوٹا بھی اسی مول میں بِکتا ہے، کھرا بھی
اس جسم کو بھی چاٹ گئی سانس کی دیمک
جیسے کبھی پہلے بھی میں گزرا ہوں یہاں سے
مانوس ہے اس رہ سے مری لغزشِ پا بھی
اس دشت کو پہچان رہی ہیں مری آنکھیں
دیکھا ہوا لگتا ہے، یہ اَن دیکھا ہوا بھی
اب فیصلہ کن موڑ پہ آ پہنچا مرا عشق
دریا بھی ہے موجود یہاں، کچا گھڑا بھی
اس بار میں ممکن ہے بھٹک جاؤں سفر میں
اس بار مرے ساتھ ہوا بھی ہے، دِیا بھی
یہ شہر فرشتوں سے بھرا رہتا ہے، عامیؔ
اس شہر پہ اک خاص عنایت ہے، سزا بھی
عمران عامی
No comments:
Post a Comment