Monday 24 November 2014

چلی ہے شہر میں کیسی ہوا اداسی کی

چلی ہے شہر میں کیسی ہوا اداسی کی
سبھی نے اوڑھ رکھی ہے رِدا اداسی
لباسِ غم میں تو وہ اور بن گیا قاتل
سجی ہے کیسی، کسی پر قبا اداسی کی
غزل کہوں تو خیالوں کی دھند میں مجھ سے
کرے کلام کوئی الپسرا اداسی کی
خیالِ یار کا بادل اگر کھلا بھی کبھی
تو دھوپ پھیل گئی جا بجا اداسی کی
بہت دنوں سے تیری یاد کیوں نہیں آئی
وہ میری دوست میری ہمنوا اداسی کی
فرازؔ نے تجھے دیکھا تو کس قدر خوش تھا
پھر اس کے بعد چلی وہ ہوا اداسی کی

احمد فراز

No comments:

Post a Comment