نہ کوئی تازہ رفاقت نہ یارِ دیرینہ
وہ قحطِ عشق کہ دشوار ہو گیا جینا
مِرے چراغ تو سورج کے ہم نسب نکلے
غلط تھا اب کے تِری آندھیوں کا تخمینہ
یہ زخم کھائیو سر پر بپاسِ دستِ سبُو
تمھیں بھی ہجر کا دکھ ہے نہ قرب کی خواہش
سنو کہ بھول چکے ہم بھی عہدِ پارینہ
چلو کہ بادہ گساروں کو سنگسار کریں
چلو کہ ٹھہرا ہے کارِ ثواب، خوں پینا
اس ایک شخص کی سج دھج غضب کی تھی کہ فراز
میں دیکھتا تھا، اسے دیکھتا تھا آئینہ
احمد فراز
No comments:
Post a Comment