ترے غرور کا حلیہ بگاڑ ڈالوں گا
میں آج تیرا گریبان پھاڑ ڈالوں گا
طرح طرح کے شگوفے جو چھوڑتا ہے تُو
میں دل کا باغِ نمو ہی اجاڑ ڈالوں گا
کہاں کا سیلِ ازل تا کنار گاہِ ابد
بہت ادا سے تو گزرا ہے چشمہ ساروں سے
یہ سن کہ راہ میں تیری میں باڑ ڈالوں گا
شگوفگی کی تری یاد جو دلاتے ہیں
میں ایسے سارے ہی پودے اکھاڑ ڈالوں گا
یہ طے کیا ہے کہ دریائے موج مستی کو
سرابِ دشتِ تپیدہ میں گاڑ ڈالوں گا
تمام نقشِ تمنا فریب تھے، سو تھے
میں سارے نقشِ تمنا بگاڑ ڈالوں گا
جو رشتہ ہے دل و جاں کا ہے سر بہ سر جھوٹا
سو، میں تو اب دل و جاں میں دراڑ ڈالوں گا
جھنڈولے بالوں کی پُر فِتنہ، اس سے کہہ دینا
میں اس کمین کو زندہ ہی گاڑ ڈالوں گا
مجھے تو اب اس دنگل میں گندہ کرنا ہے
سو، میں اسے برے حالوں پچھاڑ ڈالوں گا
جون ایلیا
No comments:
Post a Comment