Saturday, 29 November 2014

ترے غرور کا حلیہ بگاڑ ڈالوں گا

ترے غرور کا حلیہ بگاڑ ڈالوں گا
میں آج تیرا گریبان پھاڑ ڈالوں گا
طرح طرح کے شگوفے جو چھوڑتا ہے تُو
میں دل کا باغِ  نمو ہی اجاڑ ڈالوں گا
کہاں کا سیلِ ازل تا کنار گاہِ ابد
میں ہوں عدم، میں سبھی کو لتاڑ ڈالوں گا
بہت ادا سے تو گزرا ہے چشمہ ساروں سے 
یہ سن کہ راہ میں تیری میں باڑ ڈالوں گا
شگوفگی کی تری یاد جو دلاتے ہیں 
میں ایسے سارے ہی پودے اکھاڑ ڈالوں گا
یہ طے کیا ہے کہ دریائے موج مستی کو 
سرابِ دشتِ تپیدہ میں گاڑ ڈالوں گا
تمام نقشِ تمنا فریب تھے، سو تھے
میں سارے نقشِ تمنا بگاڑ ڈالوں گا
جو رشتہ ہے دل و جاں کا ہے سر بہ سر جھوٹا 
سو، میں تو اب دل و جاں میں دراڑ ڈالوں گا
جھنڈولے بالوں کی پُر فِتنہ، اس سے کہہ دینا
میں اس کمین کو زندہ ہی گاڑ ڈالوں گا
مجھے تو اب اس دنگل میں گندہ کرنا ہے 
سو، میں اسے برے حالوں پچھاڑ ڈالوں گا

جون ایلیا

No comments:

Post a Comment