Monday, 24 November 2014

پھول آئے نہ برگ تر ہی ٹھہرے

پھول آئے، نہ برگِ تر ہی ٹھہرے
دکھ پیڑ کے بے ثمر ہی ٹھہرے
ہیں تیز بہت ہوا کے ناخن
خوشبو سے کہو کہ گھر ہی ٹھہرے
کوئی تو بنے خزاں کا ساتھی
پتہ نہ سہی، شجر ہی ٹھہرے
اس شہرِ سخن فروشگاں میں
ہم جیسے تو بے ہنر ہی ٹھہرے
ان چکھی اڑان کی بھی قیمت
آخر مرے بال و پر ہی ٹھہرے
روغن سے چمک اٹھے تو مجھ سے
اچھے مرے بام و در ہی ٹھہرے
کچھ دیر کو آنکھ رنگ چھو لے
تتلی پہ اگر نظر ہی ٹھہرے
وہ شہر میں ہے، یہی بہت ہے
کس نے کہا، میرے گھر ہی ٹھہرے
چاند اس کے نگر میں کیا رکا ہے
تارے بھی تمام ادھر ہی ٹھہرے
ہم خود ہی تھے سوختہ مقدر
ہاں! آپ ستارہ گر ہی ٹھہرے
میرے لیے منتظر ہو وہ بھی
چاہے سرِ رہگزر ہی ٹھہرے
پازیب سے پیار تھا، سو میرے
پاؤں میں سدا بھنور ہی ٹھہرے

پروین شاکر

No comments:

Post a Comment