Saturday 29 November 2014

نقش کہن

نقشِ کُہن

شانوں پہ کس کے اشک بہایا کریں گی آپ
روٹھے گا کون، کس کو منایا کریں گی آپ
وہ جا رہا ہے صبحِ محبت کا کارواں
اب شام کو کہیں بھی نہ جایا کریں گی آپ
اب کون ”خود پرست“ ستائے گا آپ کو
کِس ”بے وفا“ کے ناز اٹھایا کریں گی آپ
پہروں شبِ فراق میں تاروں کو دیکھ کر
شکلیں مِٹا مِٹا کے بنایا کریں گی آپ
گمنام الجھنوں میں گزاریں گی رات دن
بے کار اپنے جی کو جلایا کریں گی آپ
اب ”لذتِ سماعتِ رہرو“ کے واسطے
اونچے سُروں میں گیت نہ گایا کریں گی آپ
ہمجولیوں کو اپنی بسوزِ تصورات
ماضی کے واقعات سنایا کریں گی آپ
اب وہ شرارتوں کے زمانے گزر گئے
چونکے گا کون، کِس کو ڈرایا کریں گی آپ
فرقت میں دورِ گوشہ نشینی بھی آئے گا
مِلنے سہیلیوں سے نہ جایا کریں گی آپ
غصے میں نوکروں سے بھی الجھیں گی بار بار
معمولی بات کو بھی بڑھایا کریں گی آپ
پھر اس کے بعد ایک وہ منزل بھی آئے گی
دِل سے مرا خیال ہٹایا کریں گی آپ
حالاتِ نو بہ نو کے مسلسل ہجوم میں
کوشش سے اپنے جی کو لگایا کریں گی آپ
آئے گا پھر وہ دن بھی تغیر کے دور میں
دل میں کوئی خلش ہی نہ پایا کریں گی آپ
نقشِ کُہن“ کو دل سے مِٹانا ہی چاہیے”
گزرے ہوئے دنوں کو بھلانا ہی چاہیے​

جون ایلیا

No comments:

Post a Comment