Wednesday 26 November 2014

لوگ تو شام ڈھلے لوٹ کے گھر جاتے ہیں

لوگ تو شام ڈھلے لوٹ کے گھر جاتے ہیں
راستے اپنے، خدا جانے کدھر جاتے ہیں
ہم کہاں جائیں لیے وحشتِ جاں کا آزار
تند دریا تو سمندر میں اتر جاتے ہیں
اب بھلا پوچھیں تو کیا پوچھیں کسی سے تعبیر
خواب تو صبح سے پہلے ہی بکھر جا تے ہیں
آج سچ بولتے رہنا کوئی آسان نہیں
لوگ تو لوگ ہیں، آئینے مکر جاتے ہیں
جانے کس خوف سے دل سہم گیا ہے اتنا
درد پہلو بھی بدلتا ہے تو ڈر جاتے ہیں
آپ تو خیر سے اب شہ کے مصاحب ٹھہرے
جرم تو اہلِ خرابات کے سر جاتے ہیں
ہم کو بھی، ہو کوئی توفیق، دعائیں دیجے
چاہنے والے تو جی جان سے مر جاتے ہیں

سعید الظفر صدیقی

No comments:

Post a Comment