Saturday, 29 November 2014

یوں نہ گلیوں میں پھرو کانچ کے پیکر لے کر

یوں نہ گلیوں میں پِھرو کانچ کے پیکر لے کر
لوگ حاسد ہیں، نکل آئیں گے پتھر لے کر
جبکہ ہم چُھو نہ سکیں ‌ دل سے لگا بھی نہ سکیں
کیا کریں گے تجھے اے مہرِ منور لے کر
تم ذرا چپکے سے سورج کو خبر کر دینا
رات آ جائے یہاں جب مہ و اختر لے کر
کون سے کوچے میں آخر تجھے چین آئے گا
ہم کہاں جائیں تجھے اے دلِ مضطر! لے کر
وقت سے پہلے یہاں حسن پگھل جاتا ہے
صبح آتی ہے، مگر شام کا منظر لے کر​

واجد امیر 

No comments:

Post a Comment