جہاں ہے دشمنی کی حد، وہاں تک آ گئے آخر
تمہارے تیر ترکش سے کماں تک آ گئےآخر
کسی اندوہ پر اب تو کلیجے شق نہیں ہوتے
ردائے بے حسی اوڑھے کہاں تک آ گئے آخر
وہی ہو کر رہا آخر کہ جس کا دل کو دھڑکا تھا
کسی سفاک لمحے نے خموشی توڑ ہی ڈالی
جنہیں تھا زعمِ ضبطِ غم فغاں تک آ گئے آخر
بہت چاہا کہ دل میں دفن کر دیں رنجشیں واجدؔ
جو چھالے دل میں پھوٹے تھے زباں تک آ گئے آخر
واجد امیر
No comments:
Post a Comment