Tuesday 25 November 2014

الفت میں بھول جائیں وہ لیل و نہار کاش

الفت میں بھول  جائیں وہ لیل و نہار کاش
طاری اسی طرح رہے ان پر خمار کاش
محبوب کی شرارتیں محبوب ہیں، مگر
معصومیت کا جز بھی رہے برقرار کاش
آتا ہے جیسے پیار مجھے ان پہ بار بار
ایسے ہی مجھ پہ آنے لگے ان کو پیار کاش
آؤں کبھی میں پہلے، کبھی پہلے آئیں وہ
دونوں پہ گزرے کیفیتِ انتظار کاش
آئے کبھی خزاں تو ذرا دیر کے لیے
اور جھٹ سے لوٹ آئے پلٹ کر بہار کاش
آتی ہیں بدگمانیاں جانے کے ہی لیے
لوٹ آئے آپسی وہی پھر اعتبار کاش
نیت وہی ہو دل کی جو ہونٹوں پہ بات ہے
نکلے نہ ان کی بات فقط اشتہار کاش
ہو جائے ان کی جان پہ کاش آج دل سوار
جذبات پر رہے نہ انہیں اختیار کاش
مقصد پتہ نہیں جنہیں ملتا انہیں کو ہے
جن کو خبر ہے ان کو ملے اقتدار کاش
جاویدؔ رنگ اور تِرا، ان کا رنگ اور
رنگوں کا امتزاج رہے برقرار کاش

جاوید جمیل

No comments:

Post a Comment