اک عجب کیفیتِ ہوشربا طاری تھی
قریۂ جاں میں کسی جشن کی تیاری تھی
سر جھکائے ہوئے مقتل میں کھڑے تھے جلاد
تختۂ دار پہ لٹکی ہوئی خودداری تھی
خون ہی خون تھا دربار کی دیواروں پر
ایک ساعت جو تری زلف کے سائے میں کٹی
ہجر بر دوش زمانوں سے کہیں بھاری تھی
اور سب ٹھیک تھا بس ہم سے بھلائی نہ گئی
تیرے خاموش رویے میں جو بیزاری تھی
اک قیامت تھی کہ رسوا سرِ بازار تھے ہم
اور پھر اس کی وہ تشویش بھی بازاری تھی
تیرے محکوم، ترے حاشیہ برداروں کی
صرف وردی ہی نہیں سوچ بھی سرکاری تھی
سرور ارمان
No comments:
Post a Comment