پکارتی ہوئی پرچھائیوں کے پہرے ہیں
فصیلِ جسم پہ تنہائیوں کے پہرے ہیں
وہ دے رہا ہے صدائیں مجھے بلندی سے
قدم قدم پہ مگر کھائیوں کے پہرے ہیں
مِری نظر بھی تھکن آشنا ہے صدیوں سے
نکل کے گھر سے بھرے شہر میں کہاں جاؤں
ہر ایک در پہ شناسائیوں کے پہرے ہیں
وہ روشنی ہے کہ کچھ بھی نظر نہیں آتا
ہر ایک عکس پہ بینائیوں کے پہرے ہیں
وہ بھیڑ ہے کہ کہیں راستہ نہیں ناصرؔ
لگی ہے آگ، تماشائیوں کے پہرے ہیں
نصیر احمد ناصر
No comments:
Post a Comment