Monday 24 November 2014

پکارتی ہوئی پرچھائیوں کے پہرے ہیں

پکارتی ہوئی پرچھائیوں کے پہرے ہیں
فصیلِ جسم پہ تنہائیوں کے پہرے ہیں
وہ دے رہا ہے صدائیں مجھے بلندی سے
قدم قدم پہ مگر کھائیوں کے پہرے ہیں
مِری نظر بھی تھکن آشنا ہے صدیوں سے
تِرے بدن پہ بھی انگڑائیوں کے پہرے ہیں
نکل کے گھر سے بھرے شہر میں کہاں جاؤں
ہر ایک در پہ شناسائیوں کے پہرے ہیں
وہ روشنی ہے کہ کچھ بھی نظر نہیں آتا
ہر ایک عکس پہ بینائیوں کے پہرے ہیں
وہ بھیڑ ہے کہ کہیں راستہ نہیں ناصرؔ
لگی ہے آگ، تماشائیوں کے پہرے ہیں

نصیر احمد ناصر

No comments:

Post a Comment