وہ جو برباد مکانوں کے مکیں ہوتے تھے
یہ جو اونچی سی عمارت ہے، یہیں ہوتے تھے
کیوں نہ پہلے کِیا، اظہارِ محبت تم نے
تم بھی ہوتے تھے یہیں، ہم بھی یہیں ہوتے تھے
ترک ہے سلسلۂ بیعتِ آشفتہ سری
اب جو تلوار سے ہر فیصلہ منواتے ہو
کیا یہی کام محبت سے نہیں ہوتے تھے
منبروں پر جو اچھلتی ہوئی کٹھ پتلیاں ہیں
ان پہ کہتے ہیں کبھی اہلِ یقیں ہوتے تھے
واجد امیر
No comments:
Post a Comment