Saturday 29 November 2014

وہ جو برباد مکانوں کے مکیں ہوتے تھے

وہ جو برباد مکانوں کے مکیں ہوتے تھے
یہ جو اونچی سی عمارت ہے، یہیں ہوتے تھے
کیوں نہ پہلے کِیا، اظہارِ محبت تم نے
تم بھی ہوتے تھے یہیں، ہم بھی یہیں ہوتے تھے
ترک ہے سلسلۂ بیعتِ آشفتہ سری
قیس کے کتنے ہی سجادہ نشیں ہوتے تھے
اب جو تلوار سے ہر فیصلہ منواتے ہو
کیا یہی کام محبت سے نہیں ہوتے تھے
منبروں پر جو اچھلتی ہوئی کٹھ پتلیاں ہیں
ان پہ کہتے ہیں کبھی اہلِ یقیں ہوتے تھے

واجد امیر 

No comments:

Post a Comment