Thursday, 27 November 2014

شرح بے دردئ حالات نہ ہونے پائی

شرح بے دردئ حالات نہ ہونے پائی
اب کے بھی دل کی مدارات نہ ہونے پائی
پھر وہی وعدہ جو اقرار نہ بننے پایا
پھر وہی بات جو اثبات نہ ہونے پائی
پھر وہ پروانے جنہیں اِذنِ شہادت نہ ملا
پھر وہ شمعیں کہ جنہیں رات نہ ہونے پائی
پھر وہی جاں بلبی، لذتِ مے سے پہلے
پھر وہ محفل جو خرابات نہ ہونے پائی
پھر دمِ دِید رہے چشم و نظر دِید طلب
پھر شبِ وصل ملاقات نہ ہونے پائی
پھر وہاں بابِ اثر جانیے کب بند ہوا
پھر یہاں ختم مناجات نہ ہونے پائی
فیضؔ سر پر جو ہر اِک روز قیامت گزری
ایک بھی روز مکافات نہ ہونے پائی

فیض احمد فیض

No comments:

Post a Comment