جاگے ہوئے تھے خواب مگر سو رہا تھا میں
ہاتھوں میں تھی کتاب، مگر سو رہا تھا میں
جب رات اپنے رقص کی دیوانگی میں تھی
نکلا وہ ماہتاب، مگر سو رہا تھا میں
جلتی تھی لالٹین کہیں دور گاؤں میں
اک خوابگوں سی دھند تھی آنکھوں کی جھیل میں
سورج تھا زیرِ آب، مگر سو رہا تھا میں
مجھ کو پکارتے رہے ناصرؔ تمام رات
خوشبو، ہوا، گلاب، مگر سو رہا تھا میں
نصیر احمد ناصر
No comments:
Post a Comment