Monday, 24 November 2014

جاگے ہوئے تھے خواب مگر سو رہا تھا میں

جاگے ہوئے تھے خواب مگر سو رہا تھا میں
ہاتھوں میں تھی کتاب، مگر سو رہا تھا میں
جب رات اپنے رقص کی دیوانگی میں تھی
نکلا وہ ماہتاب، مگر سو رہا تھا میں
جلتی تھی لالٹین کہیں دور گاؤں میں
روشن تھا کوئی باب، مگر سو رہا تھا میں
اک خوابگوں سی دھند تھی آنکھوں کی جھیل میں
سورج تھا زیرِ آب، مگر سو رہا تھا میں
مجھ کو پکارتے رہے ناصرؔ تمام رات
خوشبو، ہوا، گلاب، مگر سو رہا تھا میں

نصیر احمد ناصر

No comments:

Post a Comment